Misbah ul Haq
مصباح الحق ریٹائر ہوگئے۔پاکستان کی کرکٹ کا ایک باب بند ہوگیا۔ مصباح الحق کےبارے میں جتنا لکھا جائے،کم ہوگا۔پاکستان کی تاریخ کے کامیاب کپتان اور پاکستان کےمعمر ترین کپتان ہونے کا ریکارڈ رکھنےوالے مصباح نے اپنے مختصر مگراثرانگیز کیرئیرمیں جتنی کامیابیاں سمیٹی،بلاشبہ ان کا شمار ڈان بریڈمین، سچن ٹنڈولکر اور ویون رچرڈ جیسے کھلاڑیوں میں کرنا چاہئے۔
مصباح الحق کےبارے میں بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ انھوں نے کرکٹ کا آغاز کافی دیرسے کیا۔ تقریبا 25 برس کی عمر میں مصباح نے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنا شروع کی۔ اس سے قبل وہ ایم بی اے کی ڈگری حاصل کرچکے تھے۔ اچھی تعلیم نے مصباح کی شخصیت کو نکھاردیا۔ جب وہ اچھی نوکری کا خواب دیکھ رہے تو ان دنوں انھوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنا شروع کردی۔ انتھک محنت کے بعد صرف دوسال کی فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتے ہی ان کا پاکستان کرکٹ ٹیم سے بلاواآگیا۔
مصباح نے 2001 میں ٹیسٹ ڈیبو کیا اور پھر 2002 میں ان کا ون ڈے ڈیبو ہوا۔ کیرئیر کے ابتدائی دورمیں مصباح ٹیم سے ان آوٹ ہوتے رہے مگر انھوں نے ہمت نہ ہاری۔ اس وقت ٹیم میں انضمام الحق کا طوطی بولتا تھا۔ ان کا ساتھ دینے کےلیے محمد یوسف اور یونس خان بھی موجود تھے۔ ان کے علاوہ عاصم کمال،فیصل اقبال اور دیگر باصلاحیت بیٹس مین بھی پاکستان ٹیم کا حصہ تھے اس لیے مصباح کوچانس ملناباظاہرمشکل لگتا تھا۔ مصباح نے اس دوران کھیل سے اپنی لگن اور محنت جاری رکھی اور فرسٹ کلاس کرکٹ میں اچھی کارکردگی دکھاتے رہے۔ 2007 میں مصباح کا ٹی ٹوینٹی ڈیبوہوا۔ پہلے ٹی ٹوینٹی ورلڈ کپ کےفائنل میں مصباح الحق کا بھارت کےخلاف غلط شاٹ شائقین کومدتوں یاد رہے گا۔
مصباح قسمت کے دھنی رہے۔2010 میں اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل نے پاکستان کی کرکٹ کو کئی برس پیچھے دھکیل دیا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم میں قیادت کا بحران پیداہوا۔ ایک ایسی ٹیم کی قیادت کرنا جس کا مورال انتہائی نیچے تھا اور جس کے تین اہم ترین کھلاڑیوں کا نام اسپاٹ فکسنگ میں آگیا تھا،مصباح نے مشکل چیلنج کوقبول کرلیا۔ انھوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کی امیدوں پرپورااترتے ہوئے بھرپورصلاحیت کے ساتھ پاکستان کرکٹ ٹیم کو دوبارہ جوڑا۔
مصباح کی قیادت میں ایک کرشمہ تھا۔ ان کے دور قیادت میں پاکستان کرکٹ میں عمران خان اور وسیم اکرم والے دور کی جھلک آتی تھی۔ مصباح نے ہمیشہ فرنٹ سے لیڈ کرنےکوترجیح تھی۔ فٹنس میں مصباح کاکوئی ثانی نہیں تھا۔ ان کا شمار ٹیم کو سپرفٹ کھلاڑیوں میں ہوتارہا۔ پریکٹس سیشن ہو یا ٹیم میٹنگ، مصباح کا منکسرمزاج رویہ ساتھی کھلاڑیوں کا ہمیشہ دل جیت لیتا۔ مصباح نے بہت کم برملا غصے کا اظہار کیا اور ہمیشہ دھیمے انداز سے مشکل سے مشکل صورتحال کا مقابلہ کیا۔
ان کے دور میں پاکستان کرکٹ نے جتنی کامیابی سمیٹی وہ بھرپورٹیم ورک اور خود پر بھروسے کی عکاس رہیں۔ پاکستان کے علاوہ غیرملکی کھلاڑیوں نے ہمیشہ مصباح الحق کی عزت کی۔ مصباح کے کیرئیر پرکبھی کوئی داغ نہ لگا۔ کسی بھی اسکینڈل میں مصباح کا نام نہ آیا۔ میچ کے دوران مصباح ایک بہادر سپہ سالار کی طرح میدان میں چاک و چوبندرہے۔ بیٹنگ میں ان کے انداز پر بہت تنقید کی گئی مگر مصباح نے کئی اہم اننگز کھیل کے اپنے ناقدوں کے منہ بند کردئیے۔
مصباح سے متعلق ایک تنقید یہ بھی ہوتی رہی کہ انھوں نے اپنے بعد کھلاڑی یا کپتان تیار نہیں کئے۔کرکٹ میں کھلاڑی خود سیکھتے ہیں۔ مصباح کا پورا کیریئر ساتھی کھلاڑیوں کے لیے قابل رشک تھا۔ ان کا بیٹنگ کا انداز ہویا کپتانی کا انداز،وہ ہروقت کیپٹن کول رہے اور ہر تنقید سہتے ہوئے ہمیشہ اپنی کارکردگی سے مخالفین کوچپ کرواتے رہے۔
پاکستان کی کرکٹ کے لیے مصباح نے پچھلے 7برسوں میں جوکچھ کیا،وہ آنےوالے کھلاڑیوں کے لیے قابل تقلید رہے گا۔ مصباح نے اپنی آخری سیریز اور آخری بین الاقوامی میچ میں بھی شائقین کےدل جیت لئیے۔ کرکٹ کا کھیل تو چلتا رہے گا مگر ان میدانوں میں حق بات کہنےوالا ،سچاپاکستانی کھلاڑی مصباح الحق نہیں ہوگ
Comments
Post a Comment